ہمارے ایک دوست جو خود بھی تاجر ہیں یہ ان کے شہر اور ان کے بازار کا سچا واقعہ ہے۔ اس بازار میں مقصود نامی تاجر تھے جس دکان میں وہ کام کرتے تھے وہ دکان اور بالاخانہ اس کی زرخرید جائیداد تھی۔ بالاخانہ میں اس کے کاریگر کام کرتے تھے۔ 4-3 ملازم اس کے ساتھ تنخواہ پر کام کرتے تھے۔ دکان‘ مکان‘ جائیداد‘ گاڑی اور دولت سب کچھ خدا نے دے رکھے تھے لوگ بھی عزت اور احترام سے پیش آتے تھے۔ یوں بہت آرام اور عزت سے بسر اوقات تھا۔ بچے جوان ہوئے تو دو لڑکیوں کی شادی شاندار طریقہ سے کی۔ دو لڑکوں میں ایک لڑکا اختر نامی جوان ہوا تو اس کی شادی دولت کی فراوانی کی وجہ سے بہت دھوم دھام سے کی گئی۔ شادی کے بعد مزے اور خوشی سے دن گزر رہے تھے کیونکہ اختر کی طرح اس کی بیوی بھی خوبصورت اور ملنسار تھی۔ ہنس مکھ ہونے کی وجہ سے ہر ایک اسے عزت اور پیار کی نظر سے دیکھتا۔ سب گھر والے بھی خوش تھے‘ ہر سہولت گھر میں موجود تھی۔ دو سال بعد خدا نے مقصود خان کو ایک چاند سا پوتا دیا۔ بہت عالی شان عقیقہ کا اہتمام کیا گیا۔ تحفے تحائف آتے رہے‘ دعوتوں کا سلسلہ بھی کئی دن جاری رہا۔
کچھ مدت بعد نہ جانے انہیں کس کی نظر لگ گئی یا کسی کی بددعا لگ گئی یہ خدا ہی جانتا ہے۔ حالات نے یکسر پلٹا کھایا۔ اس گھر میں شیطان گھس آیا۔ وہی سسر جو بہو کو بیٹی کی آواز دیکر پکارتا اور وہی بہو جو سسر کو ابو جیسے پاک نام سے یاد کرتی۔ اچانک دونوں کی نظریں بدل گئیں۔ نظریں میلی ہوگئیں اور دونوں ان عظیم رشتوں کو پائوں تلے روندتے ہوئے حرام کی راہوں پر گامزن ہوگئے۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور ایک دن دونوں کے دل میلے ہوگئے اور وہ کچھ ہوا جس کا تصور بھی ناممکن ہے اور پھر یہ چوری چھپے کا کھیل معمول بن گیا مگر دونوں کو ڈر ہر وقت ہمہ گیر ہوتا انہی دنوں اختر بے چارہ بیمار ہوگیا نہ جانے دونوں کو کیا سوجھی آپس کے مشورہ سے اختر کو راستہ سے ہٹانے کیلئے اختر کو دوا کی بجائے زہر کے انجکشن لگانے شروع کیے۔ اختر بے چارہ خوش تھا کہ اس کا علاج ہورہا ہے اسے کیا خبر تھی کہ یہ انجکشن مسیحا نہیں موت کے پیغام ہیں۔ ظالم باپ اور ظالم بیوی نے آخر اختر کو چارپائی کا کردیا۔ اٹھنے بیٹھنے کے قابل نہ رہا۔ مکروفریب کی پیکر اختر کی بیوی اختر کو جھوٹی تسلی اور جھوٹے پیار سے بہلاتی رہی‘ کبھی مکروفریب کا رونا دنیا کے دکھلاوے کیلئے کرتی‘ زہر کی وجہ سے کبھی کبھی اختر کے بدن میں آگ محسوس ہوتی تو رو رو کر باپ سے فریاد کرتا ظالم باپ کا دل پھر بھی نہ بدلا اور جھوٹی تسلی دیتا کہ جلد ہی ٹھیک ہوجائو گے اورواقعی ایک ماہ کے اندر اندر ایسا ٹھیک ہوا کہ ہمیشہ کیلئے دنیا کو چھوڑ کر چلاگیا اور یوں ان دونوں کے راستے کی دیوار ہٹ گئی۔
دونوں دل میں تو خوش تھے مگر کسی پر ظاہر نہیں کرسکتے تھے۔ چہلم کے گزرتے ہی حالات نے پلٹا کھایا اب دونوں کو احساس ہوا مگر پانی سر سے گزرچکا تھا۔ دوسری طرف نہ جانے لوگوں کو کیسے کچھ حالات معلوم ہونے لگے اور ان کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا خدا نے ان پر قہر نازل کیا۔ مقصود کا کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ کاروبار کے بند ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ گاڑی‘ زیورات اور جائیداد بکنے لگی۔ حالات شدید خراب ہوگئے ادھر کچھ لوگوں کو شک گزرا کہ اختر مرا نہیں بلکہ مارا گیا ہے لیکن کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کارروائی نہ ہوسکی آخر چوری چھپے مقصود نے بالاخانے اور دکان کا سودا کرکے جگہ بیچ دی کسی کو خبر نہ ہوئی۔ گھر والے اور دیگر بچے بھی بے خبر تھے۔ اتوار کو ویسے بھی چھٹی ہوتی ہے۔ ظالم مقصود نے رقم جیب میں ڈالی اور اختر کی ظالم اور بے وفا بیوی کو ساتھ لیکر گھر سے غائب ہوگئے اور راتوں رات اندھیرے میں ایسے غائب ہوئے کہ آج تین سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ونوں کا سراغ نہ مل سکا۔ مقصود کا معصوم پوتا امی ابو کو یاد کرتے کرتے اور روتے روتے دل تسلی ہوگیا۔ پیر کی صبح کو گھر والوں اور بازار والوں کو حقیقت کا پتا چلا تو سب ہی حیران ہوگئے۔ بچے بیوی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوگئے کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ کسی کو ان کی خبر بھی نہیں کہ کہاں ہیں؟
اس راز سے بھی پردہ نہ اٹھ سکا کہ آخر ایک عورت کی خاطر سب کچھ داو پر لگا کر خود بھی تباہ ہوا اور پورے گھر والوں کو بھی تباہ کردیا۔ ہر ایک مقصود پرلعنت بھیجتا ہے اور ہر ایک نفرت کرتا ہے لیکن اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ تو اس دنیا کی سزا ہے آخرت کی سزا تو باقی ہے کیونکہ اس دربار سے تو نہیں بچ سکتا۔ اپنے ہی خون کے قتل کی سزا۔ برے کام کی سزا‘ امانت میں خیانت کی سزا‘ کاش! ہم انسان سوچ سکیں تو انجام اتنا بھیانک نہ ہو۔ خدا کرے ہمیں ہوش آجائے‘ خدا کبھی ایسے سسر اور ایسی بہوئیں پیدا نہ کرے جو تباہی اور بے عزتی کا باعث ہوں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں